33
یروشلم میں دوبارہ خوشی ہو گی
1 یرمیاہ اب تک شاہی محافظوں کے صحن میں گرفتار تھا کہ رب ایک بار پھر اُس سے ہم کلام ہوا، 2 ”جو سب کچھ خلق کرتا، تشکیل دیتا اور قائم رکھتا ہے اُس کا نام رب ہے۔ یہی رب فرماتا ہے، 3 مجھے پکار تو مَیں تجھے جواب میں ایسی عظیم اور ناقابلِ فہم باتیں بیان کروں گا جو تُو نہیں جانتا۔
4 کیونکہ رب جو اسرائیل کا خدا ہے فرماتا ہے کہ تم نے اِس شہر کے مکانوں بلکہ چند ایک شاہی مکانوں کو بھی ڈھا دیا ہے تاکہ اُن کے پتھروں اور لکڑی سے فصیل کو مضبوط کرو اور شہر کو دشمن کے پُشتوں اور تلوار سے بچائے رکھو۔ 5 گو تم بابل کی فوج سے لڑنا چاہتے ہو، لیکن شہر کے گھر اسرائیلیوں کی لاشوں سے بھر جائیں گے۔ کیونکہ اُن ہی پر مَیں اپنا غضب نازل کروں گا۔ یروشلم کی تمام بےدینی کے باعث مَیں نے اپنا منہ اُس سے چھپا لیا ہے۔
6 لیکن بعد میں مَیں اُسے شفا دے کر تندرستی بخشوں گا، مَیں اُس کے باشندوں کو صحت عطا کروں گا اور اُن پر دیرپا سلامتی اور وفاداری کا اظہار کروں گا۔ 7 کیونکہ مَیں یہوداہ اور اسرائیل کو بحال کر کے اُنہیں ویسے تعمیر کروں گا جیسے پہلے تھے۔ 8 مَیں اُنہیں اُن کی تمام بےدینی سے پاک صاف کر کے اُن کی تمام سرکشی اور تمام گناہوں کو معاف کر دوں گا۔ 9 تب یروشلم پوری دنیا میں میرے لئے مسرت، شہرت، تعریف اور جلال کا باعث بنے گا۔ دنیا کے تمام ممالک میری اُس پر مہربانی دیکھ کر متاثر ہو جائیں گے۔ وہ گھبرا کر کانپ اُٹھیں گے جب اُنہیں پتا چلے گا کہ مَیں نے یروشلم کو کتنی برکت اور سکون مہیا کیا ہے۔
10 تم کہتے ہو، ’ہمارا شہر ویران و سنسان ہے۔ اُس میں نہ انسان، نہ حیوان رہتے ہیں۔‘ لیکن رب فرماتا ہے کہ یروشلم اور یہوداہ کے دیگر شہروں کی جو گلیاں اِس وقت ویران اور انسان و حیوان سے خالی ہیں، 11 اُن میں دوبارہ خوشی و شادمانی، دُولھے دُلھن کی آواز اور رب کے گھر میں شکرگزاری کی قربانیاں پہنچانے والوں کے گیت سنائی دیں گے۔ اُس وقت وہ گائیں گے، ’رب الافواج کا شکر کرو، کیونکہ رب بھلا ہے، اور اُس کی شفقت ابدی ہے۔‘ کیونکہ مَیں اِس ملک کو پہلے کی طرح بحال کر دوں گا۔ یہ رب کا فرمان ہے۔
12 رب الافواج فرماتا ہے کہ فی الحال یہ مقام ویران اور انسان و حیوان سے خالی ہے۔ لیکن آئندہ یہاں اور باقی تمام شہروں میں دوبارہ ایسی چراگاہیں ہوں گی جہاں گلہ بان اپنے ریوڑوں کو چَرائیں گے۔ 13 تب پورے ملک میں چرواہے اپنے ریوڑوں کو گنتے اور سنبھالتے ہوئے نظر آئیں گے، خواہ پہاڑی علاقے کے شہروں یا مغرب کے نشیبی پہاڑی علاقے میں دیکھو، خواہ دشتِ نجب یا بن یمین کے قبائلی علاقے میں معلوم کرو، خواہ یروشلم کے دیہات یا یہوداہ کے باقی شہروں میں دریافت کرو۔ یہ رب کا فرمان ہے۔
ابدی عہد کا وعدہ
14 رب فرماتا ہے کہ ایسا وقت آنے والا ہے جب مَیں وہ اچھا وعدہ پورا کروں گا جو مَیں نے اسرائیل کے گھرانے اور یہوداہ کے گھرانے سے کیا ہے۔ 15 اُس وقت مَیں داؤد کی نسل سے ایک راست باز کونپل پھوٹنے دوں گا، اور وہی ملک میں انصاف اور راستی قائم کرے گا۔ 16 اُن دنوں میں یہوداہ کو چھٹکارا ملے گا اور یروشلم پُرامن زندگی گزارے گا۔ تب یروشلم ’رب ہماری راستی‘ کہلائے گا۔ 17 کیونکہ رب فرماتا ہے کہ اسرائیل کے تخت پر بیٹھنے والا ہمیشہ ہی داؤد کی نسل کا ہو گا۔ 18 اِسی طرح رب کے گھر میں خدمت گزار امام ہمیشہ ہی لاوی کے قبیلے کے ہوں گے۔ وہی متواتر میرے حضور بھسم ہونے والی قربانیاں اور غلہ اور ذبح کی قربانیاں پیش کریں گے۔“
19 رب ایک بار پھر یرمیاہ سے ہم کلام ہوا، 20 ”رب فرماتا ہے کہ مَیں نے دن اور رات سے عہد باندھا ہے کہ وہ مقررہ وقت پر اور ترتیب وار گزریں۔ کوئی اِس عہد کو توڑ نہیں سکتا۔ 21 اِسی طرح مَیں نے اپنے خادم داؤد سے بھی عہد باندھ کر وعدہ کیا کہ اسرائیل کا بادشاہ ہمیشہ اُسی کی نسل کا ہو گا۔ نیز، مَیں نے لاوی کے اماموں سے بھی عہد باندھ کر وعدہ کیا کہ رب کے گھر میں خدمت گزار امام ہمیشہ لاوی کے قبیلے کے ہی ہوں گے۔ رات اور دن سے بندھے ہوئے عہد کی طرح اِن عہدوں کو بھی توڑا نہیں جا سکتا۔ 22 مَیں اپنے خادم داؤد کی اولاد اور اپنے خدمت گزار لاویوں کو ستاروں اور سمندر کی ریت جیسا بےشمار بنا دوں گا۔“
23 رب یرمیاہ سے ایک بار پھر ہم کلام ہوا، 24 ”کیا تجھے لوگوں کی باتیں معلوم نہیں ہوئیں؟ یہ کہہ رہے ہیں، ’گو رب نے اسرائیل اور یہوداہ کو چن کر اپنی قوم بنا لیا تھا، لیکن اب اُس نے دونوں کو رد کر دیا ہے۔‘ یوں وہ میری قوم کو حقیر جانتے ہیں بلکہ اِسے اب سے قوم ہی نہیں سمجھتے۔“ 25 لیکن رب فرماتا ہے، ”جو عہد مَیں نے دن اور رات سے باندھا ہے وہ مَیں نہیں توڑوں گا، نہ کبھی آسمان و زمین کے مقررہ اصول منسوخ کروں گا۔ 26 اِسی طرح یہ ممکن ہی نہیں کہ مَیں یعقوب اور اپنے خادم داؤد کی اولاد کو کبھی رد کروں۔ نہیں، مَیں ہمیشہ ہی داؤد کی نسل میں سے کسی کو تخت پر بٹھاؤں گا تاکہ وہ ابراہیم، اسحاق اور یعقوب کی اولاد پر حکومت کرے، کیونکہ مَیں اُنہیں بحال کر کے اُن پر ترس کھاؤں گا۔“