22
بلق بلعام کو اسرائیل پر لعنت بھیجنے کے لئے بُلاتا ہے
اِس کے بعد اسرائیلی موآب کے میدانوں میں پہنچ کر دریائے یردن کے مشرقی کنارے پر یریحو کے آمنے سامنے خیمہ زن ہوئے۔
موآب کے بادشاہ بلق بن صفور کو معلوم ہوا کہ اسرائیلیوں نے اموریوں کے ساتھ کیا کچھ کیا ہے۔ موآبیوں نے یہ بھی دیکھا کہ اسرائیلی بہت زیادہ ہیں، اِس لئے اُن پر دہشت چھا گئی۔ اُنہوں نے مِدیانیوں کے بزرگوں سے بات کی، ”اب یہ ہجوم اِس طرح ہمارے ارد گرد کا علاقہ چٹ کر جائے گا جس طرح بَیل میدان کی گھاس چٹ کر جاتا ہے۔“
تب بلق نے اپنے قاصد فتور شہر کو بھیجے جو دریائے فرات پر واقع تھا اور جہاں بلعام بن بعور اپنے وطن میں رہتا تھا۔ قاصد اُسے بُلانے کے لئے اُس کے پاس پہنچے اور اُسے بلق کا پیغام سنایا، ”ایک قوم مصر سے نکل آئی ہے جو رُوئے زمین پر چھا کر میرے قریب ہی آباد ہوئی ہے۔ اِس لئے آئیں اور اِن لوگوں پر لعنت بھیجیں، کیونکہ وہ مجھ سے زیادہ طاقت ور ہیں۔ پھر شاید مَیں اُنہیں شکست دے کر ملک سے بھگا سکوں۔ کیونکہ مَیں جانتا ہوں کہ جنہیں آپ برکت دیتے ہیں اُنہیں برکت ملتی ہے اور جن پر آپ لعنت بھیجتے ہیں اُن پر لعنت آتی ہے۔“
یہ پیغام لے کر موآب اور مِدیان کے بزرگ روانہ ہوئے۔ اُن کے پاس انعام کے پیسے تھے۔ بلعام کے پاس پہنچ کر اُنہوں نے اُسے بلق کا پیغام سنایا۔ بلعام نے کہا، ”رات یہاں گزاریں۔ کل مَیں آپ کو بتا دوں گا کہ رب اِس کے بارے میں کیا فرماتا ہے۔“ چنانچہ موآبی سردار اُس کے پاس ٹھہر گئے۔
رات کے وقت اللہ بلعام پر ظاہر ہوا۔ اُس نے پوچھا، ”یہ آدمی کون ہیں جو تیرے پاس آئے ہیں؟“ 10 بلعام نے جواب دیا، ”موآب کے بادشاہ بلق بن صفور نے مجھے پیغام بھیجا ہے، 11 ’جو قوم مصر سے نکل آئی ہے وہ رُوئے زمین پر چھا گئی ہے۔ اِس لئے آئیں اور میرے لئے اُن پر لعنت بھیجیں۔ پھر شاید مَیں اُن سے لڑ کر اُنہیں بھگا دینے میں کامیاب ہو جاؤں‘۔“ 12 رب نے بلعام سے کہا، ”اُن کے ساتھ نہ جانا۔ تجھے اُن پر لعنت بھیجنے کی اجازت نہیں ہے، کیونکہ اُن پر میری برکت ہے۔“
13 اگلی صبح بلعام جاگ اُٹھا تو اُس نے بلق کے سرداروں سے کہا، ”اپنے وطن واپس چلے جائیں، کیونکہ رب نے مجھے آپ کے ساتھ جانے کی اجازت نہیں دی۔“ 14 چنانچہ موآبی سردار خالی ہاتھ بلق کے پاس واپس آئے۔ اُنہوں نے کہا، ”بلعام ہمارے ساتھ آنے سے انکار کرتا ہے۔“ 15 تب بلق نے اَور سردار بھیجے جو پہلے والوں کی نسبت تعداد اور عُہدے کے لحاظ سے زیادہ تھے۔ 16 وہ بلعام کے پاس جا کر کہنے لگے، ”بلق بن صفور کہتے ہیں کہ کوئی بھی بات آپ کو میرے پاس آنے سے نہ روکے، 17 کیونکہ مَیں آپ کو بڑا انعام دوں گا۔ آپ جو بھی کہیں گے مَیں کرنے کے لئے تیار ہوں۔ آئیں تو سہی اور میرے لئے اُن لوگوں پر لعنت بھیجیں۔“
18 لیکن بلعام نے جواب دیا، ”اگر بلق اپنے محل کو چاندی اور سونے سے بھر کر بھی مجھے دے توبھی مَیں رب اپنے خدا کے فرمان کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا، خواہ بات چھوٹی ہو یا بڑی۔ 19 آپ دوسرے سرداروں کی طرح رات یہاں گزاریں۔ اِتنے میں مَیں معلوم کروں گا کہ رب مجھے مزید کیا کچھ بتاتا ہے۔“
20 اُس رات اللہ بلعام پر ظاہر ہوا اور کہا، ”چونکہ یہ آدمی تجھے بُلانے آئے ہیں اِس لئے اُن کے ساتھ چلا جا۔ لیکن صرف وہی کچھ کرنا جو مَیں تجھے بتاؤں گا۔“
بلعام کی گدھی
21 صبح کو بلعام نے اُٹھ کر اپنی گدھی پر زِین کسا اور موآبی سرداروں کے ساتھ چل پڑا۔ 22 لیکن اللہ نہایت غصے ہوا کہ وہ جا رہا ہے، اِس لئے اُس کا فرشتہ اُس کا مقابلہ کرنے کے لئے راستے میں کھڑا ہو گیا۔ بلعام اپنی گدھی پر سوار تھا اور اُس کے دو نوکر اُس کے ساتھ چل رہے تھے۔ 23 جب گدھی نے دیکھا کہ رب کا فرشتہ اپنے ہاتھ میں تلوار تھامے ہوئے راستے میں کھڑا ہے تو وہ راستے سے ہٹ کر کھیت میں چلنے لگی۔ بلعام اُسے مارتے مارتے راستے پر واپس لے آیا۔
24 پھر وہ انگور کے دو باغوں کے درمیان سے گزرنے لگے۔ راستہ تنگ تھا، کیونکہ وہ دونوں طرف باغوں کی چاردیواری سے بند تھا۔ اب رب کا فرشتہ وہاں کھڑا ہوا۔ 25 گدھی یہ دیکھ کر چاردیواری کے ساتھ ساتھ چلنے لگی، اور بلعام کا پاؤں کچلا گیا۔ اُس نے اُسے دوبارہ مارا۔
26 رب کا فرشتہ آگے نکلا اور تیسری مرتبہ راستے میں کھڑا ہو گیا۔ اب راستے سے ہٹ جانے کی کوئی گنجائش نہیں تھی، نہ دائیں طرف اور نہ بائیں طرف۔ 27 جب گدھی نے رب کا فرشتہ دیکھا تو وہ لیٹ گئی۔ بلعام کو غصہ آ گیا، اور اُس نے اُسے اپنی لاٹھی سے خوب مارا۔
28 تب رب نے گدھی کو بولنے دیا، اور اُس نے بلعام سے کہا، ”مَیں نے آپ سے کیا غلط سلوک کیا ہے کہ آپ مجھے اب تیسری دفعہ پیٹ رہے ہیں؟“ 29 بلعام نے جواب دیا، ”تُو نے مجھے بےوقوف بنایا ہے! کاش میرے ہاتھ میں تلوار ہوتی تو مَیں ابھی تجھے ذبح کر دیتا!“ 30 گدھی نے بلعام سے کہا، ”کیا مَیں آپ کی گدھی نہیں ہوں جس پر آپ آج تک سوار ہوتے رہے ہیں؟ کیا مجھے کبھی ایسا کرنے کی عادت تھی؟“ اُس نے کہا، ”نہیں۔“
31 پھر رب نے بلعام کی آنکھیں کھولیں اور اُس نے رب کے فرشتے کو دیکھا جو اب تک ہاتھ میں تلوار تھامے ہوئے راستے میں کھڑا تھا۔ بلعام نے منہ کے بل گر کر سجدہ کیا۔ 32 رب کے فرشتے نے پوچھا، ”تُو نے تین بار اپنی گدھی کو کیوں پیٹا؟ مَیں تیرے مقابلے میں آیا ہوں، کیونکہ جس طرف تُو بڑھ رہا ہے اُس کا انجام بُرا ہے۔ 33 گدھی تین مرتبہ مجھے دیکھ کر میری طرف سے ہٹ گئی۔ اگر وہ نہ ہٹتی تو تُو اِس وقت ہلاک ہو گیا ہوتا اگرچہ مَیں گدھی کو چھوڑ دیتا۔“
34 بلعام نے رب کے فرشتے سے کہا، ”مَیں نے گناہ کیا ہے۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ تُو میرے مقابلے میں راستے میں کھڑا ہے۔ لیکن اگر میرا سفر تجھے بُرا لگے تو مَیں اب واپس چلا جاؤں گا۔“ 35 رب کے فرشتے نے کہا، ”اِن آدمیوں کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھ۔ لیکن صرف وہی کچھ کہنا جو مَیں تجھے بتاؤں گا۔“ چنانچہ بلعام نے بلق کے سرداروں کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھا۔
36 جب بلق کو خبر ملی کہ بلعام آ رہا ہے تو وہ اُس سے ملنے کے لئے موآب کے اُس شہر تک گیا جو موآب کی سرحد دریائے ارنون پر واقع ہے۔ 37 اُس نے بلعام سے کہا، ”کیا مَیں نے آپ کو اطلاع نہیں بھیجی تھی کہ آپ ضرور آئیں؟ آپ کیوں نہیں آئے؟ کیا آپ نے سوچا کہ مَیں آپ کو مناسب انعام نہیں دے پاؤں گا؟“ 38 بلعام نے جواب دیا، ”بہر حال اب مَیں پہنچ گیا ہوں۔ لیکن مَیں صرف وہی کچھ کہہ سکتا ہوں جو اللہ نے پہلے ہی میرے منہ میں ڈال دیا ہے۔“
39 پھر بلعام بلق کے ساتھ قِریَت حصات گیا۔ 40 وہاں بلق نے گائےبَیل اور بھیڑبکریاں قربان کر کے اُن کے گوشت میں سے بلعام اور اُس کے ساتھ والے سرداروں کو دے دیا۔ 41 اگلی صبح بلق بلعام کو ساتھ لے کر ایک اونچی جگہ پر چڑھ گیا جس کا نام باموت بعل تھا۔ وہاں سے اسرائیلی خیمہ گاہ کا کنارہ نظر آتا تھا۔